سونے کو ہاتھ لگاتا ہوں مٹی بن جاتا ہے
ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کا انتخاب۔ نام اور جگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔ اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کرانا چاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا فرمائے آمین۔ حکیم صاحب! زندگی کے اس موڑ پر کھڑا ہوں جہاں ہر طرف دکھوں غموں اور کرب کے خوفناک اندھیاروں میں مایوسیوں کے عفریت منہ کھولے کھڑے ہیں اور جہاں زندگی اذیت اور موت فرحت محسوس ہوتی ہے۔ میں وہ انسان ہوں کرب و بلا کی شاید آخری سے بھی آخری حد کو چھو رہا ہوں۔ دکھ اور پریشانیاں ساون کے بادلوں کی طرح دوڑ دوڑ کر آرہے ہیں۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے‘ روشنی کی کوئی کرن بھی نہیں نظر آتی اور اب دو ہی راہیں رہ گئی ہیں یا تو موت کو گلے لگالوں یا پھر پاگل ہوجاوں گا اور اب تو یہ حال بھی ہوچکا ہے کہ بعض اوقات خود کو بھول جاتا ہوں کہ میرا نام کیا ہے۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ عرصہ 2 سال سے بیروزگار ہوں بچے ہیں اچھے پڑھے لکھے لیکن بے کار قرض لے لے کر یہ صورت بن چکی ہے کہ شاید ہی کوئی دوست کوئی عزیز کوئی محلہ دار ہو جس کا قرض نہ دینا ہو۔ اب سفید پیش ہوں جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا وگرنہ اللہ نہ کرے‘ اللہ نہ کرے اللہ نہ کرے بازاروں میں مانگتا پھرتا۔ قرض کے انبار نہیں پہاڑ سر پر اٹھائے اٹھائے تھک چکا ہوں۔ مذہبی بندہ ہوں سود کو حرام سمجھتا ہوں اور اللہ کے ساتھ جنگ نہیں کرسکتا لیکن گزشتہ ماہ ایک عالم سے بحث ہوئی اس نے کہا کہ زندگی بچانے کیلئے مردار لیکن اتنا کے زندگی بچ سکے کھا سکتا ہے لہٰذا لاہور کی ایک کمپنی کی ایڈ مقامی اخبار میںدیکھی تو 17 ہزار قرض اٹھا کر اپلائی کردیا لیکن افسوس یہ سب فراڈ نکلا اور یہ لوگ اللہ کے ان بندوں کو جو زندگی سے بیزار ہوچکے ہیں ان کو لوٹنے سے بھی نہیں چونکتے۔
حکیم صاحب مسئلہ یہ ہے کہ میں عام سا آدمی ہوں اور ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا کہ کوئی کسی کے خلاف جادو وغیرہ کرسکتا ہے لہٰذا میں سمجھاکہ دو ہی راستے ہیں کہ یا تو میری آزمائش ہے اور یا پھر میرے اعمال کی سزا۔ آزمائش اس لیے نہیں ہوسکتی کہ اتنا نیک نہیں کہ اتنی بڑی اور کڑی تکلیفوں سے گزارا جاوں دوسری طرف گناہ گار تو ہوں لیکن ہر روز ہر دن ہر رات اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کرتے کرتے آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہوچکے اور حدیث شریف میں پڑھا تھا کہ جب انسان دل سے کسی بھی گناہ کی معافی مانگ کر دو آنسو بہا لیتا ہے تو رب کعبہ اسے ضرور ضرور معاف کردیتے ہیں اور جب معاف کردیتے ہیں تو پھر وہ گناہ گناہ نہیں رہتا مٹادیا جاتا ہے۔
حکیم صاحب اب میری یہ بات رہ جاتی ہے کہ جس طریقے سے انداز سے اور یکے بعد دیگرے پریشانیاں اٹھ اٹھ کر آرہی ہیں اور بار بار درخواستوں کی التجاوں کے نوکری نام کی کوئی چیز بھی نہیں مل رہی بلکہ ابھی پہلی پریشانی ختم نہیں ہوتی کہ اس سے بڑھ کر مصیبت سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ سنا کرتا تھا کہ ”سونے کو ہاتھ لگاتا ہوں مٹی بن جاتا ہے“ یہی صورت حال میرے ساتھ ہے ایک بھی لمحہ خوشیوں کا نہیں گزرتا بلکہ ہر آنے والا لمحہ پہلے سے بدتر اور کرب ناک ہوتا جارہا ہے۔
حکیم صاحب اب تو یہ صورت حال ہوچکی ہے کہ موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے تو دل کانپنے لگتا ہے خوف آتا ہے کہ نہ جانے کس قرض خواہ کا فون ہو نہ جانے کیا بری خبر ہو۔ کسی کو مسکراتا دیکھتا ہوں تو آنسو آجاتے ہیں۔ عجیب سی حسرت سے اسے دیکھتا ہوں اللہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن اب بک رہا ہے قرض مزید بڑھ رہا ہے۔ عرصہ دو سال سے ہر مسنون دعا ہر مسنون عمل کرچکا لیکن لگتا ہے وہ بھی الٹ جاتا ہے کہ عمل کرتا ہوں مصیبت بڑھ جاتی ہے۔ پریشانی مزید آتی ہے عرصہ دو سال سے کوئی خوشی نہیں دیکھی دن رات نوافل‘ نفل حاجات نہ جانے کیا کیا دعائیں مانگ چکا۔ اللہ میاں سے اس طرح التجائیں بھی کرلیں کہ اگر ایسی التجائیں ماں باپ کی قبر پر جاکر مانگتا تو وہ تڑپ کر باہر آجاتے اور میرا ایمان اور یقین ہے کہ رب کعبہ تو ماں باپ سے 70 گنا تو کیا ہزار گنا زیادہ رحیم ہیں پھر کیا وجہ ہے میری بیوی میرے بچوں کے آنسو خشک ہوگئے ہیں لیکن دکھ برابر بڑھتے ہی جارہے ہیں جو نہیں مانتا تھا کہ جادو وغیرہ بھی ہوتا ہے اور ایسا سنگدل انسان کون ہوگا جو دوسروں کو ایسا کرکے پریشان کرکے حالانکہ میرے ساتھ چند دن پہلے فراڈ ہوا کراچی میں ادھار لیکر رقم دی کہ لوٹی جائے لیکن فراڈ نکلا لیکن میرا دل تو ان کو بددعا نہیں دینے دیتا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے انہیں معاف کردو حالانکہ یہ قرض اٹھا کر چند لقموں کو بھی ترس گیا ہوں۔
حکیم صاحب! باتیں تو بہت ہیں‘ دکھ تو بہت ہیں آخر میں یہ کہوں گا کہ اب صرف اور صرف خودکشی ہی شاید ان مصائف سے نجات دلائے‘ شیطاں بہت خوش ہورہا ہے کہ اللہ کا ایک بندہ اس کی رحمت سے مایوس ہوگیا نہیں میں مایوس نہیں ہوا بددل ہوا ہوں کہ شاید میرے گناہ ہی اتنے سنگین ہیں کہ مجھ پر رحم نہیں کیا جاسکتا اور یاپھر کسی اللہ کے بندے نے واقعی کچھ کردیا ہے۔ آپ کو تمام حالات لکھ دئیے آخری پونجی چند روپے تھے وہ بھی لگارہا ہوں۔ مایوسیوں کی انتہا پر پہنچ چکا ہوں کوئی دور دور بھی امید کی روشنی نہیں ہر طرف اندھیرا ہے۔
بڑے بڑے سیاستدانوں سے بھی اپیل کی‘ بڑے بڑے این جی اوز کے اداروں سے بھی التجا کی‘ بڑے بڑے گدی نشینوں سے بھی کہا اور بڑے بڑے دین کے ٹھیکیداروں سے بھی کہا‘ حکومتی ایوانوں کو بھی جھنجھوڑا سرمایہ داروں کو بھی واسطہ دیا۔ دوست احباب رشتہ دار بھی نہ بنے‘ خطابت سے لوگوں کو رلانے والوں سے بھی التجا کی لیکن نہ جانے کیوں دنیا روٹھ سی گئی ہے جیسے کہ کسی نے حکماً منع کردیا کہ اس بندے کی مدد نہیں کرنی۔ آپ سے التجا ہے کہ پلیز میری رہنمائی کریں کہ میں کیا کروں۔ کس طرح کروں کہ دکھوں اور مصیبتوں کی ان آندھیوں سے بچ جاوں‘ کرب و الم کی ان سیاہ راتوں کی بجائے خوشیوں بھری روشن روشن کرنوں کو محسوس کروں اور خوف و اذیت سے جان چھوٹ جائے کہ قرض سے نجات مل جائے مجھے اور میرے بچوں کو اچھا روزگار مل جائے۔ آپ سے التماس ہے کہ محفل میں بھی میرے لیے سپیشل دعا کریں اور کرائیں۔
کچھ بتائیں کہ کیا کروں کیا پڑھوں کہ ظلمت ناک انددھیروں سے جان چھوٹے لوگوں کے دلوں میں چھنی ہوئی عزت دوبارہ آجائے۔اتنا بتادوں سر کہ اللہ کے فضل سے میں میری بیوی مکمل نمازی‘ ایک بچہ قرآن پاک حفظ کرچکا ہے گھر کے تمام افراد الحمدللہ نمازی ہیں۔
(قارئین الجھی زندگی کا سلگتا خط آپ نے پڑھا، یقینا آپ دکھی ہوئے ہوں گے۔ پھر آپ خود ہی جواب دیں کہ اس دکھ کا مداوا کیا ہے؟)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں